Breaking News

ضرورت برائے نمائندگان صدائے دھرتی رحیم یار خان ملک بھر سے نمائندگان /صحافی رابطہ کر سکتے ہیں موبائل نمبر 03006747831

Saturday, June 20, 2020

سورج کو گرہن لگ گیا، چاند زمین تک پہنچنے والی سورج کی شعاعوں کا راستہ روکنے لگا، 11 بجے کے بعد کراچی میں سورج گرہن اپنے عروج پر پہنچ گیا۔


سورج کو گرہن لگ گیا، چاند زمین تک پہنچنے والی سورج کی شعاعوں کا راستہ روکنے لگا، 11 بجے کے بعد کراچی میں سورج گرہن اپنے عروج پر پہنچ گیا۔

محکمۂ موسمیات کے مطابق سورج گرہن پاکستان سمیت افریقہ اور ایشیاء کے کئی ممالک میں دیکھا جا رہا ہے، ملک کے کچھ شہروں میں مکمل اور کہیں جزوی روشنی کا ہالہ بنے گا۔

پاکستان میں آج صبح 9 بج کر 26 منٹ پر سورج کو گرہن لگنا شروع ہوا تھا، مکمل گرہن لگنے کے بعد سورج روشنی کے گول دائرے یا چھلے کی مانند نظر آئے گا۔

ماہرین کے مطابق کراچی میں رِنگ آف فائر نہیں دکھا جا سکے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ رِنگ آف فائر کا یہ منظر پاکستان میں لاڑکانہ اور سکھر میں دیکھا جاسکے گا، سورج گرہن دوپہر 1 بجے کے بعد تک جاری رہے گا۔

پاکستان میں سورج گرہن کا ایسا منظر سال 2095ء میں دیکھا جا سکے گا۔

محکمۂ موسمیات کے مطابق کراچی میں سورج گرہن کا آغاز صبح 9 بجکر 26 منٹ پر ہوا، جبکہ شہرِ قائد میں سورج گرہن کا اختتام 12 بج کر 46 منٹ پر ہو گا۔

محکمۂ موسمیات کے مطابق ملک میں سورج کو جزوی گرہن لگنے کا آغاز 8 بج کر 46 منٹ پر ہوا ہے، 11 بج کر 40 منٹ پر گرہن اپنے عروج پر ہو گا، جبکہ دوپہر 2 بج کر 34 منٹ پر گرہن ختم ہو جائے گا۔

محکمۂ موسمیات کے مطابق مکمل یا تکمیل کے قریب سورج گرہن بلوچستان کے ساحلی علاقوں، شمالی سندھ اور جنوبی پنجاب میں دیکھا جا سکے گا۔

محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ 1999ء والے گرہن کے بعد یہ سب سے بڑا سورج گرہن ہوگا، کراچی میں گرہن کے دوران سورج کا 92 فیصد حصہ چاند کے پیچھے چھپ جائے گا۔

لاہور میں سورج گرہن کا آغاز صبح 9 بج کر 48 منٹ پر ہوا، 11 بج کر 26 منٹ پر یہ عروج پر پہنچ گیا، سورج کا 91 فیصد حصہ چاند کے پیچھے چھپ جائے گا۔

لاہور میں سورج گرہن کا اختتام دوپہر 1 بج کر 10 منٹ پر ہوگا، اسلام آباد میں سورج گرہن کا عروج دن 11 بج کر 25 منٹ پر ہوا۔

سورج گرہن کی وجہ سے درجۂ حرارت میں واضح کمی آئے گی۔

ماہرینِ فلکیات و طب نے سورج گرہن کے دوران براہِ راست سورج کا مشاہدہ نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سورج گرہن کے وقت براہِ راست سورج دیکھنے کی کوشش نہ کریں، بینائی کو نقصان پہنچ سکتا ہے یا بینائی جانے کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔

ماہرین نے سورج گرہن کے دوران سورج کی طرف بغیر کسی فلٹر والے چشمے کے دیکھنے سے منع کیا ہے اور کہا ہے کہ ذرا سی بے احتیاطی سورج گرہن دیکھنے والے کو عمر بھر کے لیے بصارت سے محروم کر سکتی ہے۔

ماہرِ امراض چشم کے مطابق گرہن کے دوران سورج کی طرف دیکھنے والوں کی آنکھوں کے پردے کا مرکزی حصہ متاثر ہو سکتا ہے۔

علمائے کرام کہتے ہیں کہ سورج گرہن کے دوران توبہ، استغفار کی کثرت کے ساتھ نمازِ کسوف ادا کریں۔

ملک بھر میں جہاں جہاں سورج کو گرہن لگا وہاں نمازِ کسوف ادا کی گئی جبکہ مختلف شہروں میں اس وقت بھی نمازِ کسوف ادا کی جا رہی ہے


Monday, June 15, 2020

آج کا اخبار 16 جون2020



*اعظم گڑھ کا ہندو کیسے مدینہ یونیورسٹی اور مسجد نبوی کا معلم بن گیا؟* ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر

*اعظم گڑھ کا ہندو کیسے مدینہ یونیورسٹی اور مسجد نبوی کا معلم بن گیا؟*
 ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر 
یہ 2005 کا زمانہ تھا۔ روزنامہ نوائے وقت میں معروف کالم نگار عرفان صدیقی صاحب کا ایک کالم بعنوان ”گنگا سے زم زم تک۔“ شائع ہوا۔ کالم میں انہوں نے بھارت کے ایک کٹر ہندو نوجوان کا تذکرہ کیا تھا۔ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر جس نے اسلام قبول کیا۔ نوجوان پر اس قدر احسان الٰہی ہوا کہ وہ دل و جان سے اسلامی تعلیمات کی جانب راغب ہوگیا۔ مدینہ منورہ اور مصر کی جامعات سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد شعبہ تدریس سے منسلک ہوا۔
سعودی عرب کی مدینہ یونیورسٹی میں پروفیسر اور ڈین کے عہدے تک جا پہنچا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تحقیقات اسلامی میں جت گیا۔ عربی اور ہندی میں درجنوں کتابیں لکھ ڈالیں۔ ان کتب کا ترجمہ دنیا کے مختلف ممالک کے دینی مدارس کے نصاب کا حصہ ہے۔ اس قدر با سعادت ٹھہرا کہ مسجد نبوی ﷺ میں حدیث کا درس دینے لگا۔ کفر کے اندھیروں سے نکل کر اسلام کے روشن راستوں پر گامزن ہونے والے پروفیسر ڈاکٹر ضیا الرحمن اعظمی کے سفر سعادت کے بارے میں لکھا گیا یہ کالم میری یاداشت سے کبھی محو نہیں ہو سکا۔
اس مرتبہ عمرہ پر جاتے وقت میں نے حج و عمرہ کی دعاؤں اور اسلامی تاریخ سے متعلق کچھ کتابیں اپنے سامان میں رکھ لی تھیں۔ ایک کتاب جو آخری وقت پر میں نے اپنے ہمراہ لی وہ عرفان صدیقی صاحب کی ”مکہ مدینہ“ تھی۔ مدینہ منورہ میں آئے دوسرا دن تھا۔ میں ہوٹل کے کمرے میں ”مکہ مدینہ“ کی ورق گردانی میں مصروف تھی۔ اچانک پندرہ برس قبل لکھا گیا کالم۔ ”گنگا سے زم زم تک“ آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ ایک بار پھر مجھے ڈاکٹر ضیا الرحمن اعظمی اور ان کی زندگی کا سفر یاد آ گیا۔
امی کو میں ان کے قبول اسلام کا قصہ بتانے لگی۔ با آواز بلند کالم بھی پڑھ کر سنایا۔ کالم پڑھنے کے بعد ان کے متعلق سوچنے لگی۔ انگلیوں پر گن کر حساب لگایا کہ اب ان کی عمر کم و بیش 77 برس ہو گی۔ خیال آیا نجانے اب ان کی صحت علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کی متحمل ہو گی بھی یا نہیں۔ دل میں خواہش ابھری کہ کاش میں ان سے ملاقات کر سکوں۔ ایک علمی و ادبی شخصیت سے رابطہ کیا اور یہ خواہش گوش گزار کی۔ ان کا جواب سن کر مجھے بے حد مایوسی ہوئی۔ کہنے لگے کہ اعظمی صاحب عمومی طور پر میل ملاقاتوں سے انتہائی گریزاں رہتے ہیں۔ خواتین سے تو غالباً بالکل نہیں ملتے جلتے۔ انتہائی مایوسی کے عالم میں یہ گفتگو اختتام پذیر ہوئی۔ لیکن اگلے دن انہوں نے خوشخبری سنائی کہ اعظمی صاحب سے بات ہو گئی ہے۔ ہدایت دی کہ میں فون پر ان سے رابطہ کر لوں۔
زندگی میں مجھے بہت سی نامور دینی، علمی، ادبی اور دیگر شخصیات سے ملاقات اور گفتگو کے مواقع ملے ہیں۔ خصوصی طور پر بھاری بھرکم سیاسی شخصیات۔ پروٹوکول جن کے آگے پیچھے بندھا رہتا ہے۔ لوگ جن کی خوشنودی خاطر میں بچھے جاتے ہیں۔ ایک لمحے کے لئے میں کسی شخصیت سے مرعوب ہوئی، نا کسی کے عہدے، رتبے اور مرتبے کا رعب و دبدبہ مجھ پر کبھی طاری ہوا۔ لیکن ڈاکٹر ضیا الرحمن اعظمی کو ٹیلی فون کال ملاتے وقت مجھ پر گھبراہٹ طاری تھی۔
دل کی دھڑکنیں منتشر تھیں۔ ان سے بات کرتے میری زبان کچھ لڑکھڑائی اور آواز کپکپا گئی۔ عرض کیا کہ برسوں پہلے ایک کالم کے توسط سے آپ سے تعارف ہوا تھا۔ برسوں سے میں آپ کے بارے میں سوچا کرتی ہوں۔ برسوں سے خواہش ہے کہ آپ سے شرف ملاقات حاصل ہو سکے۔ نہایت عاجزی سے کہنے لگے۔ میں کوئی ایسی بڑی شخصیت نہیں ہوں۔ جب چاہیں گھر چلی آئیں۔ اگلے دن بعد از نماز عشا ء ملاقات کا وقت طے ہوا۔ نہایت فراخدلی سے کہنے لگے آپ کو یقیناً راستوں سے آگاہی نہیں ہو گی، کل میرا ڈرائیور آپ کو لینے پہنچ جائے گا۔ شکریہ کے ساتھ عرض کیا کہ میں خود وقت مقررہ پر حاضر ہو جاؤں گی۔ اس کے بعد میں بے تابی سے اگلے دن کا انتظار کرنے لگی۔ اس سے قبل کہ میں اس ملاقات کا احوال لکھوں، قارئین کے لئے پروفیسر ڈاکٹر ضیا الرحمن اعظمی کے قبول اسلام کی مختصر داستان بیان کرتی ہوں۔
1943 میں اعظم گڑھ (ہندوستان) کے ایک ہندو گھرانے میں ایک بچے نے جنم لیا۔ والدین نے اس کا نام بانکے رام رکھا۔ بچے کا والد ایک خوشحال کاروباری شخص تھا۔ اعظم گڑھ سے کلکتہ تک اس کا کاروبار پھیلا ہوا تھا۔ بچہ آسائشوں سے بھرپور زندگی گزارتے ہوئے جوان ہوا۔ وہ شبلی کالج اعظم گڑھ میں زیر تعلیم تھا۔ کتابوں کے مطالعے سے اسے فطری رغبت تھی۔ ایک دن مولانا مودودی کی کتاب ”دین حق“ کا ہندی ترجمہ اس کے ہاتھ لگا۔ نہایت ذوق و شوق سے اس کتاب کا مطالعہ کیا۔ بار بار پڑھنے کے بعد اسے اپنے اندر کچھ تبدیلی اور اضطراب محسوس ہوا۔ اس کے بعد اسے خواجہ حسن نظامی کا ہندی ترجمہ قرآن پڑھنے کا موقع ملا۔
نوجوان کا تعلق ایک برہمن ہندو گھرانے سے تھا۔ کٹر ہندو ماحول میں اس کی تربیت ہوئی تھی۔ ہندو مذہب سے اسے خاص لگاؤ تھا۔ باقی مذاہب کو وہ برسر حق نہیں سمجھتا تھا۔ اسلام کا مطالعہ شروع کیا تو قرآن کی یہ آیت اس کی نگاہ سے گزری۔ ترجمہ: اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام ہے۔ اس نے ایک بار پھر ہندو مذہب کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اپنے کالج کے لیکچرار جو گیتا اور ویدوں کے ایک بڑے عالم تھے، سے رجوع کیا۔ ان کی باتوں سے مگر اس کا دل مطمئن نہیں ہو سکا۔ شبلی کالج کے ایک استاد ہفتہ وار قرآن کا درس دیا کرتے تھے۔ نوجوان کی جستجو کو دیکھتے ہوئے استاد نے اسے حلقہ درس میں شامل ہونے کی خصوصی اجازت دے دی۔
سید مودودی کی کتابوں کے مسلسل مطالعے اور درس قرآن میں باقاعدگی سے شمولیت نے نوجوان کے دل کو قبول اسلام کے لئے قائل اور مائل کر دیا۔ پریشانی مگر یہ تھی کہ مسلمان ہونے کے بعد ہندو خاندان کے ساتھ کس طرح گزارہ ہو سکے گا۔ اپنی بہنوں کے مستقبل کے متعلق بھی وہ فکرمند تھا۔ یہی سوچیں اسلام قبول کرنے کی راہ میں حائل تھیں۔ ایک دن درس قرآن کی کلاس میں استاد نے سورت عنکبوت کی یہ آیت پڑھی۔ ترجمہ: جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا کارساز بنا رکھا ہے، ان کی مثال مکڑی کی سی ہے، جو گھر بناتی ہے اور سب سے کمزور گھر مکڑی کا ہوتا ہے۔ کاش لوگ ( اس حقیقت سے ) باخبر ہوتے۔
اس آیت اور اس کی تشریح نے بانکے رام کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اس نے تمام سہاروں کو چھوڑ کر صرف اللہ کا سہارا پکڑنے کا فیصلہ کیا اور فوری طور پر اسلام قبول کر لیا۔ اس کے بعد اس کا بیشتر وقت سید مودودی کی کتابیں پڑھنے میں گزرتا۔ نماز کے وقت خاموشی سے گھر سے نکل جاتا اور کسی الگ تھلگ جگہ پر ادائیگی کرتا۔ چند ماہ بعد والد کو خبر ہوئی تو انہوں نے سمجھا کہ لڑکے پر جن بھوت کا سایہ ہو گیا ہے۔
پنڈتوں پروہتوں سے علاج کروانے لگے۔ جو چیز وہ پنڈتوں پروہتوں سے لا کر دیتے یہ بسم اللہ پڑھ کر کھا لیتا۔ علاج معالجے میں ناکامی کے بعد گھر والوں نے اسے ہندو مذہب کی اہمیت سمجھانے اور دین اسلام سے متنفر کرنے کا اہتمام کیا۔ جب کوئی فائدہ نہ ہوا تو رونے دھونے اور منت سماجت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس سے بھی بات نہ بن سکی تو گھر والوں نے بھوک ہڑتال کا حربہ آزمایا۔ والدین اور بھائی بہن اس کے سامنے بھوک سے نڈھال پڑے سسکتے رہتے۔ اس کے بعد گھر والوں نے مار پیٹ اور تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ اللہ نے مگر ہر موقع پر اسے دین حق پر استقامت بخشی۔
اس نے تمام رکاوٹوں اور مشکلات کو نظر انداز کیا۔ ہندوستان کے مختلف دینی مدارس میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مدینہ منورہ کی جامعہ اسلامیہ (مدینہ یونیورسٹی ) میں داخل ہو گیا۔ جامعتہ الملک عبدالعزیز ( جامعہ ام القری۔ مکہ معظمہ) سے ایم۔ اے کیا۔ مصر کی جامعہ ازہر قاہرہ سے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اعظم گڑھ کے کٹر ہندو گھرانے میں آنکھ کھولنے والا یہ بچہ دنیائے اسلام کا نامور مفکر، محقق، مصنف اور مبلغ بن گیا۔
انہیں پروفیسر ڈاکٹر ضیا الرحمن اعظمی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ان کی کتابیں ہندی، عربی، انگریزی، اردو، ملائی، ترک اور دیگر زبانوں میں چھپ چکی ہیں۔ انتہائی سعادت ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے صحیح احادیث کو مرتب کرنے کے ایک انتہائی بھاری بھرکم تحقیقی کام کا بیڑہ اٹھایا اور برسوں کی محنت کے بعد اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ایسا کام جو بڑی بڑی جامعات اور تحقیقی ادارے نہیں کر سکے، ایک شخص نے تن تنہا کر ڈالا۔ گزشتہ کئی برس سے وہ مسجد نبوی میں حدیث کا درس دیتے ہیں۔
اللہ رب العزت نے اس روئے زمین پر بے شمار نعمتیں نازل فرمائی ہیں۔ ان تمام میں سب سے عظیم اور انمول ”ایمان“ کی نعمت ہے۔ سورت حجرات میں فرمان الٰہی ہے کہ دراصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی۔ سورت انعام میں فرمان ربانی ہے۔ ترجمہ: جس شخص کو اللہ تعالیٰ راستے پر ڈالنا چاہے، اس کے سینے کو اسلام کے لئے کشادہ کر دیتا ہے۔ اس شام میں طے شدہ وقت کے مطابق پروفیسر ڈاکٹر ضیا الرحمن اعظمی سے ملاقات کے لئے روانہ ہوئی، تو قرآن کی یہ آیات مجھے یاد آ گئیں۔ خیال آیا کہ اللہ کے انعام اور احسان کی انتہاء ہے کہ اس نے ہندو گھرانے میں جنم لینے والے کو صراط مستقیم کے لئے منتخب کیا۔ اسے بانکے رام سے پروفیسر ڈاکٹر ضیا الرحمن اعظمی بنا ڈالا۔ مدینہ یونیورسٹی اور مسجد نبوی ﷺ میں حدیث کے معلم اور مبلغ کی مسند پر لا بٹھایا۔
ڈاکٹر صاحب کا گھر مسجد نبوی سے چند منٹ کی مسافت پر واقع ہے۔ گھر پہنچی تو اعظمی صاحب استقبال کے لئے کھڑے تھے۔ نہایت شفقت سے ملے۔ کہنے لگے آپ پہلے گھر والوں سے مل لیجیے۔ چائے وغیرہ پیجئے۔ اس کے بعد نشست ہوتی ہے۔ مہمان خانہ (drawing room) میں داخل ہوئی تو ان کی بیگم منتظر تھیں۔ محبت اور تپاک سے ملیں۔ چند منٹ بعد ان کی دونوں بہوئیں چائے اور دیگر لوازمات تھامے چلی آئیں۔ کچھ دیر بعد ان کی بیٹی بھی آ گئی۔
اس کے بعد گھر میں موجود تمام چھوٹے بچے بھی۔ ان کی بیگم نے جامعہ کراچی سے ایم۔ اے کر رکھا ہے۔ کہنے لگیں پی۔ ایچ۔ ڈی میں داخلہ لینے کا ارادہ تھا۔ لیکن شادی ہو گئی۔ تجسس سے سوال کیا کہ ڈاکٹر صاحب ہندوستانی تھے۔ جبکہ آپ پاکستانی۔ شادی کیسے ہو گئی۔ کہنے لگیں کہ میرے ماموں مدینہ یونیورسٹی سے منسلک تھے۔ اعظمی صاحب سے ان کی میل ملاقات رہتی تھی۔ بتانے لگیں کہ اعظمی صاحب اس قدر مصروف رہا کرتے تھے کہ میرے پڑھنے لکھنے کی گنجائش نہیں نکلتی تھی۔
البتہ چند سال قبل میں نے حفظ قرآن کی سعادت حاصل کی۔ تینوں بچے اشاعت دین کی طرف نہیں آئے۔ ان کا خیال تھا کہ جتنا کام ان کے والد نے کیا ہے۔ اس قدر وہ کبھی نہیں کر سکیں گے۔ یہی سوچ کر وہ مختلف شعبوں میں چلے گئے۔ پھر کہنے لگیں کہ آپ کسی بھی شعبہ میں ہوں، اللہ کے بندوں کی خدمت کر کے اپنی آخرت سنوار سکتے ہیں۔
آدھ پون گھنٹہ بعد اعظمی صاحب کا بلاوا آ گیا۔ ان کے لائبریری نما دفتر کا رخ کیا۔ ابتدائی تعارف کے بعد کہنے لگے کہ میڈیا اور دیگر لوگ انٹرویو وغیرہ کے لئے رابطہ کرتے ہیں۔ میں اپنی ذاتی تشہیر سے گھبراتا ہوں۔ درخواست کرتا ہوں کہ میری ذات کے بجائے، میرے تحقیقی کام کی تشہیر کی جائے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے آگاہ اور مستفید ہو سکیں۔ پھر اپنی کتابیں دکھانے اور تحقیقی کام کی تفصیلات بتانے لگے۔ ان کی تحقیق اور درجنوں تصانیف کی مکمل تفصیل کئی صفحات کی متقاضی ہے۔
لیکن ایک تصنیف (بلکہ عظیم کارنامہ) کا مختصر تذکرہ ناگزیر ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بیس برس کی محنت اور جانفشانی کے بعد ”الجامع الکامل فی الحدیث ال صحیح الشامل۔“ کی صورت ایک عظیم الشان علمی اور تحقیقی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں یہ پہلی کتاب ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کی تمام صحیح حدیثوں کو مختلف کتب احادیث سے جمع کیا اور ایک کتاب میں یکجا کر دیا گیا ہے۔ الجامع الکامل سولہ ہزار صحیح احادیث پر مشتمل ہے۔ اس کے 6 ہزار ابواب ہیں۔ اس کا پہلا ایڈیشن 12 جبکہ دوسرا ایڈیشن اضافات کے ساتھ 19 ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔
اعظمی صاحب نے بتایا کہ کم وبیش 25 برس میں بطور پروفیسر دنیا کے مختلف ممالک کے دورے کرتا رہا۔ اکثر یہ سوال اٹھتا کہ قرآن تو ایک کتابی شکل میں موجود ہے۔ مگر حدیث کی کوئی ایک کتاب بتائیں، جس میں تمام احادیث یکجا ہوں۔ جس سے استفادہ کیا جا سکے۔ صدیوں سے علمائے کرام اور مبلغین سے غیر مسلم اور مستشرقین یہ سوال کیا کرتے۔ مگر کسی کے پاس اس کا تشفی بخش جواب نہ تھا۔ مجھے بھی یہ سوالات درپیش رہتے۔ لہذا میں نے حدیث کی ایک کتاب مرتب کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ انہوں نے بتایا کہ طبع دوم میں 99 فیصد صحیح احادیث آ گئی ہیں۔ سو فیصد کہنا اس لئے درست نہیں کہ صد فیصد صحیح صرف اللہ کی کتاب ہے۔
انتہائی حیرت سے استفسار کیا کہ اس قدر دقیق اور پیچیدہ کام آپ نے تن تنہا کیسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ کہنے لگے میری یہ بات گرہ سے باندھ لیجیے کہ کسی کام کی ”لگن اور جستجو“ ہو تو وہ نا ممکن نہیں رہتا۔ سوال کیا کہ اس قدر بھاری بھرکم تحقیق کے لئے آپ دن رات کام میں جتے رہتے ہوں گے۔ کہنے لگے۔ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کیا کرتا تھا۔ صبح سویرے کام کا آغاز کرتا اور رات دو اڑھائی بجے تک مصروف رہتا۔ بتانے لگے کہ یہ (وسیع و عریض) گھر جو آپ دیکھ رہی ہیں۔
یہ سا را گھر ایک لائبریری کی مانند تھا۔ ہر جانب کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ یوں سمجھیں کہ میں نے ایک لائبریری میں اپنی چارپائی ڈال رکھی تھی۔ جب تحقیقی کام مکمل ہو گیا تو میں نے تمام کتابیں عطیہ (donate) کر دیں۔ خاندان کا تعاون میسر نہ ہوتا تو میں یہ کام نہیں کر سکتا تھا۔ کمپیوٹر کی جانب اشارہ کر کے بتانے لگے کہ میں اسے استعمال نہیں کر سکتا۔ عشروں سے معمول ہے کہ اپنے ہاتھ سے لکھتا ہوں۔ کوئی نہ کوئی شاگرد میرے ساتھ منسلک رہتا ہے۔ وہ کمپوزنگ کر تا ہے۔
ڈاکٹر اعظمی صاحب ہندی اور عربی زبان میں بیسیوں کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان تصانیف کے تراجم درجنوں زبانوں میں چھپتے ہیں۔ سعودی عرب اور دیگر ممالک کی جامعات اور دینی مدارس میں ان کی کتب پڑھائی جاتی ہیں۔ کہنے لگے کہ نہایت تکلیف دہ بات ہے کہ مسلمانوں نے ہندوستان میں کم و بیش آٹھ صدیوں تک حکمرانی کی۔ بادشاہوں نے عالیشان عمارات تعمیر کروائیں۔ تاہم غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے اپنے ہم وطن غیر مسلمین کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے لئے اشاعت دین کا کام نہیں کیا۔
ہندوؤں کی کتابوں کا فارسی اور سنسکرت میں ترجمہ کروایا۔ مگر قرآن و حدیث کا ہندی ترجمہ نہیں کروایا۔ اگر مسلمان حکمران یہ کام کرتے تو یقین جانیں آج سارا بھارت مسلمان ہو چکا ہوتا۔ (ان دنوں بھارت میں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کی مہم عروج پر تھی) ۔ کہنے لگے کہ اگر برصغیر کے مسلمان حکمرانوں نے اشاعت دین کا فریضہ سرانجام دیا ہوتا، تو آج یہ نوبت نا آتی۔ بھارت میں 80 کروڑ ہندو بستے ہیں۔ مشن میرا یہ ہے کہ ہر ہندو گھرانے میں قرآن اور حدیث کی کتب پہنچیں۔ یہی سوچ کر میں ہندی زبان میں لکھتا ہوں۔
اس مقصد کے تحت ڈاکٹر صاحب نے ہندی زبان میں ”قرآن مجید انسائیکلو پیڈیا“ کی تصنیف فرمائی۔ عرصہ دس برس میں یہ تحقیقی کام مکمل ہوا۔ یہ کتاب قرآن پاک کے تقریباً چھ سو موضوعات پر مشتمل ہے۔ تاریخ ہند میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جو اس موضوع پر لکھی گئی۔ یہ کتاب بھارت میں کافی مقبول ہے۔ اب تک اس کے آٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ کچھ برس قبل اس کا انگریزی اور اردو ترجمہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچا۔ سوال کیا کہ آپ کی کتابوں سے ہندو اور دیگر غیر مسلم متاثر ہوتے ہیں؟ کہنے لگے جی ہاں اطلاعات آتی رہتی ہیں کہ میری فلاں فلاں کتاب پڑھنے کے بعد فلاں فلاں غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔
کم و بیش گزشتہ بیس برس سے انہوں نے کوئی سفر نہیں کیا۔ کہنے لگے کہ لائبریری سے دور کہیں آنے جانے کو جی نہیں چاہتا۔ کتابوں سے دور ہوتا ہوں تو گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔ معلوم کیا کہ آج کل کیا مصروفیات ہیں۔ بتانے لگے کہ کچھ تحقیقی کام جا ری ہیں۔ گزشتہ آٹھ دس برس سے مسجد نبوی ﷺ میں حدیث کا درس دیتا ہوں۔ پہلے بخاری شریف اور صحیح مسلم کے دروس دیے۔ آج کل سنن ابی داود کا درس جاری ہے۔ بتانے لگے کہ میں لیکچر کچھ اس طرح تیار کرتا ہوں کہ شرح تیار ہو جائے۔ تاکہ لیکچرز مکمل ہونے کے بعد کتابی شکل میں چھپ سکے۔ مختصر یہ کہ انہوں نے دین کی نشر و اشاعت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ ان کی ہر تعلیمی، علمی اور تحقیقی سرگرمی کے پیچھے یہی جذبہ و جنون کار فرما ہے۔
آخر میں مجھے اپنی کچھ کتابوں کا اردو ترجمہ عنایت کیا۔ ان پر میرا نام اور عربی زبان میں دعائیہ کلمات تحریر فرمائے۔ کم و بیش اڑھائی تین گھنٹوں بعد میں نے واپسی کی راہ لی۔ اعظمی صاحب برآمدہ (porch) تک تشریف لائے۔ گاڑی گھر سے باہر نکلنے تک وہیں کھڑے رہے۔ ہوٹل واپس لوٹتے وقت مجھے ان پر نہایت رشک آیا۔ خود پر انتہائی ندامت ہوئی۔ خیال آیا کہ ایک میں ہوں، جسے برسوں سے دنیا جہاں کے بے وقعت کاموں سے فرصت نہیں۔ ایک یہ ہیں جو عشروں سے حقیقی فلاح اور کامیابی سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ دعا کی کہ کاش مجھے بھی اللہ کا پیغام سمجھنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی نشر و اشاعت کی توفیق نصیب ہو جائے۔ آمین۔

رحیم یار خان میں غیر قانونی پلازاجات کی تعمیر پارکنگ کی جکہ پر قبضہ

رحیم یار خان (خصوصی رپورٹ سردار عبدالمجیب خان ویھا )رحیم یار خان میں غیر قانونی پلازاجات کی تعمیر پارکنگ کی جکہ پر قبضہ تفصیل کے مطابق
شاہی روڑ چناب سنٹر افیسر کالونی و دیگر شہر کے کمرشل علاقوں میں غیر قانونی پلازہ جات کی تعمیر ہورہی ہے ان میں سے اکثریت بغیر نقشہ تعمیر ہورہے ہیں کچھ جو حال ہی میں تعمیر ہوِئے ہیں انھوں نے پارکنگ کی جگہ ہی نہیں چھوڑی میونسپل کارپوریشن کے افسران نے صرف دولت اکھٹی کرنا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے جبکہ با اثر شخصیات نے ریلوے چوک سٹی پل پر غیرقانونی پلازے تعمیر کیے ہیں جنھوں نے پارکنگ کی جگہ نہیں چھوڑی جسکی وجہ سے پلازے کے سینکڑوں افراد امدورفت کے لیے آتے ہیں تو اپنی سواریاں موٹرسائیکل کاریں سڑک پر کھڑی کردیتے ہیں جسکی وجہ سے ٹریفک بلاک رہتی ہے شہریوں کو شدید زہنی ازیت کاسامناکرنا پڑتا ہے گزشتہ ایک برس میں شاہی روڑ سٹی پل سٹی سنٹر مین افیسر کالونی وشہر کی دیگر اہم شاہرایں ہسپتال روڑ ایر پورٹ روڑ پر جتنے بھی پلازے بنے ہیں ان سب نے تقریبا پارکنگ نہیں چھوڑی اور میونسپل کمیٹی نقشہ برانچ کو راضی کیا خواہ وہ بزریعہ رشوت ہو یا کسی اہم سیاسی شخصیت کی سفارش جس کو جو بھی جتن کرنا پڑے اس نے کیے   لیکن کسی نے اجتماعی بھلائی کے بارے نہیں سوچا اج سب نے انکھیں بند کی ہوئی ہیں  ڈپٹی کمشنر رحیمیارخان سے شہری اپیل کرتے ہیں کہ وہ خصوصی طور پر اس مسئلے کو توجہ دیں شہر کی اہم شہراوں پر جو پلازے بن رہے ہیں ان کو پارکنگ کی جگہ چھوڑنے کا پابند بنائیں اور گزشتہ دو برس جو پلازے بنے ان کے نقشہ جات چیک کریں اور نقشہ کے مطابق پارکنگ کی جگہ چھڑوائِیں یہ اپکا رحیم یار خان کی عوام پر احسان ہوگا جب اہم شاہراوں پر پلازے مالکان قانون کے مطابق پارکنگ چھوڑیں گے تو ٹریفک کا مسئلہ خود بخود حل ہو حائے گا. . .

رحیم یارخاں:شیخ زیدمیڈیکل کالج ہسپتال کےسینٹری ورکرزاورڈیلی ویجز ملازمین نےصفائی کانظام ٹھیکےپردیئے جانے کےخلاف دوسرےروزبھی احتجاج کیا





⭕رحیم یارخاں:شیخ زیدمیڈیکل کالج 
ہسپتال کےسینٹری ورکرزاورڈیلی ویجز ملازمین نےصفائی کانظام ٹھیکےپردیئے جانے کےخلاف دوسرےروزبھی احتجاج کیا احتجاج میں کثیر تعداد میں ڈیلی ویجزملازمین بشمول خواتین ملازم نے شرکت کی احتجاجی ملازمین اپنے مطالبات ریگولر کیے جانے، ملازمین کا معاشی قتل کئے جانے ،اور ٹھیکے داری نظام کے خلاف پلے کارڈ بھی اٹھا رکھیں تھے۔ احتجاجی ملازمین نے شیخ زید ہسپتال کے مین گیٹ کو بند کر دیا اور ہسپتال کے سامنے ٹائر جلا کر احتجاج۔ احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے صدر ایمپلائز ویلفیئر ایسوسی ایشن شیخ زید میڈیکل کالج/ہسپتال جنرل سیکرٹری پنجاب پاکستان ہیلتھ سپورٹ سٹاف آرگنائزیشن عمران ارشد نے کہا کہ وہ تمام ڈیلی ویجز ملازمین کو ریگولر کروا کرہی دم لیں گے جن کا ہائی کوٹ ریگولر کرنے کا فیصلہ دے چکی ہے انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے برعکس ہسپتال انتظامیہ کا ان ملازمین کو ٹھیکے داری نظام کے ماتحت کرنا کورٹ کے آرڈرز کی حکم عدولی ہے محمد علی ملک چیف آرگنائزر ایمپلائز ویلفیئر ایسوسی ایشن نے احتجاجی ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے واضح احکامات درج ہے کہ ان ڈیلی ویجز ملازمین کو ریگولر کر دیا جائے انہوں نے کہا کہ تمام ڈیلی ویجز ملازمین کے ریگولر ہونے تک ہم اپنی تحریک جاری رکھیں گے انہوں نے کہا کہ ملک کرونا وبا کی لپیٹ میں ہے اور اس موقع پر ان ملازمین کوٹھکیداری نظام کے ماتحت   کرنا سراسر زیادتی ہے جو ملازمین اپنی زندگی کے دس دس پندرہ، پندرہ سال ادارے کی خدمت کر چکے ہیں آخر میں گرینڈہیلتھ الائنس کے چیئرمین ڈاکٹر شبیر احمد وڑائچ نے کہا کے ہسپتال انتظامیہ ہوش کے ناخن لے اور ہائی کورٹ کے واضح احکامات کو نظر انداز نہ کرےانہوں نے کہا کہ سینٹری ورکرز، وارڈ بوائے، پیرامیڈکس، بیلتھ سپورٹ سٹاف،سٹاف نرسز اور ڈاکٹر اسٹاف سمیت تمام ہیلتھ سٹاف کرونا جیسی عالمی وبا میں جہاں پر یہ وائرس لاکھوں زندگیوں کو ختم کر چکا ہے فرنٹ لائن کے طور پر کام کر رہے ہیں اور کسی محکمے کا کوئی عملہ ڈائریکٹ ان کرونا مریضوں سے متاثر نہیں ہو رہا جتنا ہیلتھ کا عمل متاثر ہورہا ہے اور اپنی جان کے نذرانے بھی پیش کر رہا ہے انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ تمام ملازمین چاہیں کلاس فور ہوں کلاس تھری یا پھر گزٹیڈسٹاف ہو سب کو ریگولر کیا جائے جس پر سپریم کورٹ کے واضح احکامات بھی موجود ہے انہوں نے کہا کہ وہ ایمپلائزویلفیئرایسوسی ایشن کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور ان ملازمین کے ریگولر ہونے تک وہ -چین سے نہیں بیٹھیں گے بعد ازاں پرنسپل شیخ زید میڈیکل کالج وہ ہسپتال پروفیسر ڈاکٹر طارق احمد نے ایمپلائز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے عہدیداران کو مذاکرات کے لئے بلایا جس پر گرینڈ ہیلتھ الائنس کی طرف سے ڈاکٹر شبیر احمد وڑائچ نے نے نمائندگی کی مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوئے جس پر پرنسپل شیخ زید میڈیکل کالج ہاسپٹل نے ڈیلی دیلھے ملازمین کو ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ریگولر کرنے کے لئے سات رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی کمیٹی کے کنوینئر پروفیسر ڈاکٹر خالدپنصوتہ ممبر ڈائریکٹر فنانس کلیم اللہ مہر،ڈاکٹر شبیر وڑائچ ،محمد علی ملک ،غلام مصطفی ایڈمن آفیسر محمد جعفر آفس سپرنٹنڈنٹ لیگل ایڈوائزر خرم شامل ہیں کمیٹی کو 14 دن میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے  ایمپلائز ویلفیئر ایسوسی ایشن اور گرینڈ ہیلتھ الائنس کے عہدے داران نے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر طارق احمد کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کا شکریہ ادا کیا بعد ازاں ان عہدے داران نے تمام احتجاجی ملازمین کو اپنے اپنے کام پر جانے کی ہدایت کی اس پر احتجاج ملازمین نے اپنا احتجاج ختم کردیا اور کمیٹی کے فیصلے کے انتظار تک احتجاج نہیں کیا جائے گا

Saturday, June 13, 2020

آج کا اخبار 13جون 2020





آج کا اخبار 12جون2020



اوگرا کا چھ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر چارکروڑ روپے جرمانہ

اوگرا کا چھ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر چارکروڑ روپے جرمانہ

تیل اورگیس کی ریگولیٹری اتھارٹی نے چھ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پرانہیں دیئے گئے لائسنسوں کی شرائط کے مطابق ایندھن کا مطلوبہ ذخیرہ برقرار نہ رکھنے پرچارکروڑ روپے جرمانہ عائد کیاہے۔ یو این این کے مطابق اوگراکے ترجمان عمران غزنوی نے ایک اعلامیے میں کہاہے کہ اٹک پٹرولیم لمیٹڈ،PUMA، گیس اینڈآئل پاکستان لمیٹڈ اورHascolکو پچاس،پچاس لاکھ روپے اورشیل پاکستان اور ٹوٹل پارکوپاکستان کوایک ،ایک کروڑ روپے جرمانہ کیاگیاہے۔ یو این این کے مطابق انہوں نے کہاکہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کواپنے ریٹیلرز کوباقاعدگی سے پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے دوسری صورت میں ان پر قانون کے مطابق جرمانہ عائد کیاجائے گا۔
Unn

Wednesday, June 3, 2020

یہ وہ بشر ہیں جن پر فرشتے بھی رشک کرتے ہیں,,

#Respect🙌
یہ وہ بشر ہیں جن پر فرشتے بھی رشک کرتے ہیں,, 




یہ محترمہ لعل ہے جو وادی ہنزہ کے دور دراز گاؤں شیشمل کی واحد ڈاکٹر، نرس، دائی، ڈسپنسر، ویکسینیٹر اور مشیر صحت ہے.
 گاؤں میں کسی کو میڈیکل ایمرجنسی ہو تو لعل چوبیس گھنٹے حاضر ہوتی ہے پچھلے اٹھائیس سالوں میں ہر بچہ اسکے ہاتھوں پیدا ہوا ، جب کسی کو گلگت کے زچہ بچہ ہسپتال لے جانا  ہو تو محترمہ لعل ہمیشہ مریض کے ساتھ جاتی ہے اور یہ راستہ فور بائی فور جیپ پر دس گھنٹے میں طے ہوتا ہے -

اس گاؤں میں پچھلے اٹھائیس سالوں میں کوئی خاتون دوران زچگی فوت نہیں ہوئی. لعل کو صرف یہ خوف رہتا ہے کہ جب کسی مریض کے ساتھ شہر گئی ہوئی ہو تو پیچھے گاؤں میں کوئی ایمرجنسی نا ہو جائے وہ کہتی ہے کہ الله نے اس گاؤں کی ساری ذمہ داری اس پر جو ڈالی ہوئی ہے --
اس با ہمت بہن کو پوری قوم کا سلام 💌

پاکستان بھر کے ریگولر ریجنل اخبارات کے حقوق کے لیے جدوجہد کر یں گے غلام مرتضی جٹ APRNS

پاکستان بھر کے ریگولر ریجنل اخبارات کے حقوق کے لیے جدوجہد کر یں گے غلام مرتضی جٹ APRNS

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)گزشتہ روز ال پاکستان ریجنل نیوز پیپر سوسائٹی کے مرکزی صدر غلام مرتضی جٹ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پا کستان بھر کے ریگولر ریجنل نیوز پیپرز کے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کریں گے لوکل اخبارات کی صنعت کو کامیاب بنانے میں.  اپنا کردار ادا کریں جہاں کسی اخبار نویس کو کسی قسم کی رہنمائی کی ضرورت ہو APRNS سے رابطہ کر سکتا ہے اب ہم  ریجنل اخبارات کی استعداد کار بڑھانے کے لیے سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ای پیر نیوز بولیٹن لائیو کے استعمال کے جدید طریقے روشناس کرانے کے لیے پاکستان بھر میں ٹریننگ سیشنز کرائیں اب اس سلسلے میں کے پی صوبہ کے اخبارات سے جلد میٹنگ کا اعلان کیا جائے گا

خون سفید ہوگیا 6 ایکڑ زرعی زمین قبضہ کرنے کے لیے بدبخت بیٹوں نے بوڑھے والدین کو تشدد کا نشانہ بنایا

خون سفید ہوگیا 6 ایکڑ زرعی زمین قبضہ کرنے کے لیے بدبخت بیٹوں نے بوڑھے والدین کو تشدد کا نشانہ بنایا 


رحیم یار خان(اپنے رپورٹر ) خون سفید ہوگیا 
6 ایکڑ زرعی زمین قبضہ کرنے کے لیے بدبخت بیٹوں نے بوڑھے والدین کو تشدد کا نشانہ بنایا اور گھر سے دھکے دے کر نکال دیا پولیس ملزمان سے مل گئی بوڑھے والدین انصاف کے لیے دربدر کی ٹھکریں کھانے پر مجبور، ایس ایچ او تھانہ کوٹسمابہ اور اسسٹنٹ کمشنر رحیم یارخان کو درخواستیں دینے کے باوجود بھی شنوائی نہ ہوئی اور الٹا ایس ایچ او تھانہ کوٹسمابہ نے بوڑھے والدین کو دھکے دے کر دفتر سے نکال دیا، متاثرین کا آئی جی پنجاب، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر رحیم یارخان سے انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ، تفصیل کے مطابق بستی محمد نگر موضع کنڈے والی رحیم یارخان کی رہائشی بوڑھی خاتون نسیم اختر زوجہ مقبول احمد نے احاطہ عدالت میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری موضع کنڈے والی میں 6 ایکڑ زمین کھاتہ نمبر 164 کھتونی نمبر 391تا 398، کھاتہ نمبر 5 کھتونی نمبر 11تا17، کھاتہ نمبر 318کھتونی نمبر 740 جس پر ہم نے گندم کی فصل کاشت کی ہوئی تھی جس پر میرے حقیقی بیٹے محبوب احمد، محمود احمد، محمد آصف اور محمد اسحاق ولد علی محمد نے زمین پر قبضہ کرنا چاہا تو ہم نے سول جج رحیم یارخان سے مورخہ 24/4/2020 کو سٹے آڈر لیا اس کے باوجود بھی ملزمان مزکورہ نے گندم کی فصل پر قبضہ کرلیا 3لاکھ پچاس ہزار مالیت گندم کے گھٹے اٹھا کر لے جا رہے تھے ہمارے منع کرنے پر ملزمان طیش میں آ گے اور میرے حقیقی بیٹے محمود احمد نے مجھ پر پستول تان لیا اور کہا کہ اگر گندم لے جانے سے منع کیا تو تمہاری خیر نہ ہوگی اور ہمیں اس دوران تشدد کا بھی نشانہ بنایا اور زبردستی گندم کے گھٹےاسلحے کے زور پر لے کر چلے گے جسکی ہم نے پولیس تھانہ کوٹسمابہ کو اطلاع دی لیکن پولیس نے ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جس پر ہم نے ڈی ایس پی کو درخواست دی اس نے بھی ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی، جب کے ملزمان ہمیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور ہمارا جینا حرام کر رکھا ہے ہم انصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ہمارا حکام بالا سے مطالبہ ہے کہ ہمیں ملزمان کے ظلم و ستم سے نجات دلائی جاے اور ہماری زرعی اراضی واگزار کرائی جاے

Tuesday, June 2, 2020

پیر یاسر کا رکن قومی اسمبلی منیر خان اورکزی اور صوبائی وزیرسندہ غلام مرتضی بلوچ کے انتقال پر اظہار افسوس

پیر یاسر کا رکن قومی اسمبلی منیر خان اورکزی اور صوبائی وزیرسندہ غلام مرتضی بلوچ کے انتقال پر اظہار افسوس


پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے مرکزی نائب صدر پیر یاسر نے کہا کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ جہنم سے نجات اور جنت کی منزل کا حصول ہی انسان کی اصل کامیابی ہے۔ ہرجانے والا شخص کل نفس موت کا پیغام اور آخرت کی تیاری کی یاد دہانی کراتا ہے۔اللہ پاک کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر اور مہلت کو آخرت کی تیاری میں لگایا جائے تو کامیابی یقینی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے جاری کردی بیان میں کیاانہوں نے کہاکہ مرحومین حسن اخلاق کا مجسمہ تھے اور پاکستان کے سیاسی میدان میں اہم مقام کے حامل تھے لیکن موت برحق ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کی زندگی میں قبر کو سامنے رکھ کر گذارا جائے تو آخرت کی منزل آسان اور یقینی بن جاتی ہے۔اللہ پاک  سے دعا ہے کہ مرحومین کی مغفرت اور لواحقین کے لیۓ صبر وجمیل عطافرماے  

جاری کردہ : : : اقبال جٹ 
پریس سکریٹری (پیر یاسر)

پاکستان مسلم لیگ فنکشنل پنجاب کے صدر مخدوم اشرف اقبال نے نومنتخب صدر پاکستان مسلم لیگ فنکشنل رحیم یارخان سردار عبدالمجیب خان ویہا راجپوت ایڈوکیٹ اور جنرل سیکرٹری سردار آصف خان عباسی کو مبارکباد

رحیم یارخان (نمائندہ خصوصی) پاکستان مسلم لیگ فنکشنل پنجاب کے صدر مخدوم اشرف اقبال نے نومنتخب صدر پاکستان مسلم لیگ فنکشنل رحیم یارخان سردار ...